خورشید اسلام یوتھ ونگ۔۔ ایک تعارف

حیات انسانی میں جوانی کوسُنہری دور( Golden Age) ہی کہا جاتا ہے کیونکہ اس عمر میں خواہشات کا ایک طوفان،قوت و توانائی کا ایک سیل رواں، چٹانوں سے ٹکرا جانے کاعزم و یقین ، ہر لمحہ تسخیر کائنات کی جدوجہد اور ہر ناممکن کو ممکن بنانے کی جستجو قلب و ذہن میں مچل رہی ہوتی ہے چنانچہ جذبات و احساسات کے اس تلاطم خیز سمندر کا کسی نہ کسی رُخ بہنا اور سب کچھ بہا لے جانا یقینی ٹھہرتا ہے لہٰذا اس جوانی کی عمر میں اگر جوانوں کو صحیح تعلیم و تربیت ،تزکیہ نفس و تطہیر باطن اور حُسن اخلاق وآداب سے آراستہ کردیا جائے تو پھر یہی جوان قوموں کی امامت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔عروج و ارتقاءکی تمام منازل انہیں کے دم قدم سے طے ہوتی ہیں جیسا کہ ہم تاریخ اسلام میں حضرت عمر بن خطاب (ستائیس سالہ)،مولا علی شیر خدا (دس سالہ)،فاتح فارس سعد بن ابن وقاص (انیس سالہ)، فقیہ معاذ بن جبل (اکیس سالہ ) ،خادم رسول اللہﷺ انس بن مالک (دس سالہ)،سابقین میں سے ارقم بن ارقم (بارہ سالہ)،جامع القرآن زید بن ثابت (گیارہ سالہ)، حواری رسول اللہﷺ زبیر بن العوام (بارہ سالہ) رضی اللہ تعالیٰ عنہم و غیرہم نوجوانوں نے اپنی اپنی عین جوانی کے وقت حُسن کردار ،جرا ¿ت،استقامت،عزم و یقین اور حُسن عمل سے تاریخ کا رُخ تبدیل کرنے کی طرف گامزن ہوتے ہوئے اور روئے زمین پر قال اللہ عزوجل و قال الرسولﷺ کا نظام عملًا تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ گویا دین اسلام کی ترویج و اشاعت اور دفاع میں نوجوان صحابہ کا پاکیزہ خون شامل ہے جس کی خوشبو سے آج انسانیت مہک رہی ہے۔

     وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا                     شباب جس کا ہے داغ ،ضرب ہے کاری    

جبکہ افسوس کا مقام ہے یہ آج کا مُسلم نوجوان اپنے مقصد تخلیق کو پس پشت ڈال کر گناہوں کی دلدل میں دھنس چکا ہے، نوجوانوں کے سیرت و کردار میں اسلامی تشخص عمومادور دور تک نظر نہیں آتا،اسلاف سے ورثہ میں ملنے والی اقدار و روایات سے نا آشنائی کے آثار ہرنوجوان میںدیکھے جا رہے ہیں،نظام عبادات سے عملاً تعلق کمزور سے کمزورتر ہو رہا ہے، جوانوں میں وقت کا ضیاع بہترین مشغلہ اور منشیات کے استعمال کا رواج بہت ہی عام ہوتا جا رہا ہے۔مغرب کے تہذیبی اثرات کے باعث ہر سُو عالم مغرب کی پیروی میں سبقت لے جانے کی کوشش زور و شور سے جاری ہے، فحاشی و عریانی اوڑھنا بچھونا بن چکی ہے ،الغرض چارسُو مایوسی ہی مایوسی دکھائی دیتی ہے ۔ الغرض جوانان اُمت کے مقصد حیات ، معمولات شب و روز،فکر و شعور،تعلّم و تعلیم حیات و طرز معاش یکسر بدل گئے ہیں یہاں سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر نوجوانوں کی مذہبیو اخلاقی،سیاسی و تربیتی،علمی و سماجی زوال کا اَساسی محرک کیا ہے؟ حکیم الامت ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے اِسی مرض کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:

     ہوئی نہ زاغ میں پیدا بُلند پروازی                     خراب کر گئی شاہیں بچے کوصُحبت زاغ    

لہٰذا آج کے نوجوان کی علمی و فکری راہنمائی،اخلاقی و روحانی تربیت اور اصلاح احوال کے لیے حضرت قدوة الاولیاءسید شہسوار شمس غوثؒ ، امام العارفین حضرت پیرسید خورشید الحسن شاہ گیلانی اور پیر سید مظہر الحسن چن پیررحمہ اللہ علیہم اجمعین کے افکار و تعلیمات کی روشنی میں جناب سید اظہر الحسن گیلانی نے خورشیداسلام یوتھ ونگ خانقاہِ عالیہ کُلّی شریف نارووال کی بنیاد رکھی، جس کے اغراض مقاصد درج ذیل ہیں۔

  1. جوانو ں کے ایمان و عقیدہ کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات،درس قرآن،شب بیداری،حلقات ذکر وفکر کا انعقاد کرنا۔

  2. سیرت رسول ﷺ کی روشنی میں نوجوانوں کی سیرت وکردار کی تعمیر و تشکیل کرنا۔

  3. ۔فلاحی معاشرہ کی تعمیر و ترقی کےلئے صالح جوانوں کی جماعت تیار کرنا۔

  4. عصر حاضر کے پُر فتن دور میں قلب وروح کی بالیدگی کے لیے نظام سلوک و تصوف کی اہمیت وافادیت کو اجاگر کرنا۔

  5. معاشرہ میں پُرامن بقائے باہمی کے لیے جوانوں میں بھائی چارہ،ہمدردی، رواداری،قانون کی پاسداری کے رجحانات کو فروغ دینا۔

  6. رفاحِ عامہ کے لئے عملی اقدامات کی تشکیل کرنا۔ اے ملت اسلامیہ کے درماندہ فرزندو اپنے ظاہر وباطن کو سنوارنا چاہتے ہو ،غم وآلام اور حسرت ویاس سے چھٹکارا چاہتے ہو تو آؤ اولیاء کے فیضان کی امین جماعت ”خورشید اسلام یوتھ ونگ “ کا حصہ بنیں۔

     تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے؟                     خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے؟    

     عبث ہے شکوہ تقدیرِیزداں                     تُو خود تقدیرِیزداں کیوں نہیں ہے؟